Skip to content

ڈاکٹ ڈھول باجے والاایک ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیقسط 16کینیڈا آئے ہوئے کئ دن ہوگئے تھے لیکن عقیل ابھی تک اپنے آپ کو اجنبی محسوس کر رہا تھا۔ اکرام الدین کی دکان پر کام کرنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ اس مقصد کے لیئے یہاں نہیں آیا تھا اوع رضوان کی داستانِ غم نے اس کی بیتابی میں اضافہ کردیا تھا۔رضوان اس سے ملنے آجاتا کرتا تھا اور کبھی کبھار اپنے گھر بھی لے جاتا۔رضوان کے بیٹے یاسر سے اسے نجانے کیوں ایک انسیت سی ہوگئ تھی۔ اس کے گھر جاتے ہوئے وہ دکان سے کچھ چاکلیٹ اور بسکٹ خرید کر لے جاتا۔ یاسر بھی اس کا گرویدہ ہورہا تھا۔ فریدہ کے ہاتھ کے کھانوں میں اسے امی کے ہاتھ کی مہک محسوس ہوتی تھی۔ رضوان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات سے حالات کی تلخی زائل تو نہیں ہوتی تھی لیکن اس میں کافی کمی آجاتی تھی۔ایک دن دکان پر ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئ۔ اجمل علی کا تعلق بھی کراچی سے تھا۔ برسوں سے کینیڈا میں مقیم تھے۔ ان کے تعلیم یافتہ گھرانے نے ہندوستان سے پاکستان اور پھر پاکستان سے کینیڈا اور امریکہ ہجرت کی۔ ایک بار مہاجر تو گویا ساری عمر مہاجر۔ یہ لوگ کس ملک کو اپنا وطن کہیں؟ ہندوستان میں پیدا ہوئے لیکن ہندوستانی نہیں کہلا سکتے۔ پاکستان ہجرت کی لیکن بسیار کوشش کے باوجود سندھ حکومت میں باوجود تعلیمی اہلیت کے ملازمت نہ مل سکی۔ سوائے کوچ کرنے کے اور کوئ راستہ نظر نہ آیا تو اجمل علی کے خاندان نے پھر سے ہجرت کی سوچی۔ کوئ بھائ کینیڈا تو کوئ امریکہ پہنچا۔ہماری روایات میں یہ بات اچھی ہے کہ بڑے بھائ باپ بن کر اپنے چھوٹے بھائ بہنوں کی پرورش اور کفایت کا فرض ہنسی خوشی نبھاتے ہیں۔ اجمل کے بڑے بھائیوں نے آہستہ آہستہ پورے خاندان کو پاکستان سے بلا کر کینیڈا اور امریکہ بلا لیا۔اجمل بنیادی طور پر انجینیئر تھا لیکن اس کے گلے میں قدرت نے نغمگی اور سوز بھرنے میں بڑی فراغ دلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ٹورنٹو کیا پورے کینیڈا میں اتنا اچھا گانے والے کم ہی تھے۔اجمل نے اپنا ایک بینڈ قائم کیا تھا۔ ہر ہفتے ہی کسی نہ کسی تقریب میں انہیں اپنے فن کے مظاہرے کے مواقع مل جاتے۔ فیض اور فراز کی غزلیں اور نظمیں گاتے تو یوں لگتا جیسے شاعر نے اجمل کی گلوکاری کو مد نظر رکھتے ہوئے الفاظ کو موتیوں میں پرویا ہو۔باتوں ہی باتوں میں عقیل نے اجمل سے کہ دیا کہ اس کے خاندان والے بھی شادی بیاہ کی تقریروں میں ڈھول بجاتے رہے ہیں“ بھئ تمہیں بھی کچھ گانا بجانا آتا ہے؟”“جی تھوڑا بہت گا لیتا ہوں اور ڈھول بھی بجا لیتا ہوں۔” عقیل نے کچھ انکساری اور کچھ ہچکچاہٹ کے لہجے میں نیچی نگاہوں کے ساتھ جواب دیا۔“ارے بھئ اتنا شرما کیوں رہے ہو؟ فنکار کو اپنے فن پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرنا چاہیئے۔ مجھے دیکھو۔ میں انجینیئر ہوں لیکن بڑے شوق اور بڑے فخر سے گانے گاتا ہوں۔ ““ارے اکرام بھائ۔ ذرا ڈاکٹر صاحب کا امتحان تو لیں۔ دیکھیں کیسا ڈھول بجاتے ہیں۔ ان کا گانا تو نہیں سنا لیکن آواز میں سوز اور ساز ہم جیسے استادوں سے چھپ نہیں سکتے۔ ہمارے بینڈ میں کوئ اپنا ڈھول بجانے والا نہیں ہے۔ وِکرم سنگھ کو مونٹریال سے بلانا پڑتا ہے۔اجمل علی کو اپنی صلاحیتوں اور تجربے پر مکمل بھروسہ تھا جیسے ایک جوہری ہیرے اور چمکتے پتھر کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے۔“ جی اجمل بھائ جیسا آپ چاہیں۔”اکرام الدین کے چہرے پر ناگواری کے اثرات آۓ، منڈلائے اور چلے گئے۔ لہجے کی بے بسی کو اجمل نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن وہ عقیل کی آنکھوں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کو اپنا احسان مند ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے اپنا زر خرید غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ اکرام الدین نے عقیل کو اپنے گھر ٹہرایا، ملازمت دی اور دل ہی دل میں گھر داماد بنانے کا بھی سوچ رہے تھے۔ اتنا حق تو بنتا تھا کہ عقیل ان سے پوچھے بغیر کوئ قدم نہ اٹھاتا۔لیکن بیچ میں اجمل آرہا تھا۔ اجمل اور اس کا خاندان برسوں سے اکرام صاحب کے گاہک تھے اور ساتھ ساتھ اجمل کا نیٹ ورک بھی کافی پھیلا ہوا تھا۔ عقیل کی گردن دبوچتے تو کاروبار میں گھاٹے کے خدشے نے انہیں محتاط رویئہ رکھنے پر مجبور کردیا۔کاروباری تجربے نے اکرام الدین کو بہت کچھ سکھا دیا تھا۔اجمل کو نا سننے کی عادت نہیں تھی۔ اسی شام وہ اور اس کے کچھ رفقاء کار اکرام الدین کی رہائش گاہ پر آدھمکے۔ عقیل کچھ سراسیمہ سا اور کچھ خوف زدہ تھا۔ اکرام صاحب کی دور رس نگاہیں ایک کاروباری موقع دیکھ رہی تھیں۔ اگر عقیل کو اجمل کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا تو اس کی وجہ سے مزید گاہک مل جائیں گے۔ مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کی اور مہمان خانے میں انہیں عقیل کی معیت میں روایتی رکھ رکھاؤ سے بیٹھنے کو کہا۔“ہاں عقیل! چلو کچھ سناؤ اور کچھ ڈھول بھی بجا کر دکھاؤ۔ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے صرف کتابیں ہی پڑھی ہیں یا کچھ موروثی فن کو بھی سیکھا ہے؟” اجمل نے ہنستے ہوئے کہا۔ اجمل کا انداز گفتگو بھی ان کی صورت کی طرح دل آویز تھا۔ تحکم اور شیرینی کے امتزاج میں اپنی بات منوانے کا ملکہ سب کو نصیب نہیں ہوتا۔عقیل نے استاد امانت علی خان کی مشہور غزل گنگنانا شروع کیہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے“ارے بھائ اس طرح گاؤگے تو جاگتی قوم گہری نیند سو جائے گی۔ بھئ اپنی آواز بلند کرو اور اس میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کرو۔” اجمل نے ذرا سختی سے کہا۔“ اور ہاں ماسٹر صاحب ذرا طبلہ بجائیں تاکہ ڈاکٹر صاحب بھی موڈ میں آجائیں۔”ببلی کا سنگت اور پردے کے پیچھے بیٹھی صغریٰ کی مشکل سے روکتی ہوئ ہنسی نے عقیل کو تقویت پہنچائ۔ پھر جو اس نے گانا شروع کیا تو سننے والے داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔گائیکی میں جان ایسے ہی تو نہیں آتی۔ کوئ حسین خیال کسی یاد کے ابھرتے نقوش کسی دید کا تصور ساتھ نہ ہوا تو بات نہیں بنتی۔اجمل نے بے ساختہ تالیاں بجائیں۔“ بھئ مان گئے۔ آواز سریلی ہے اور سر تال بھی ٹھیک۔ بس تھوڑی سی پختگی اور مزید مشق کی ضرورت ہے۔ سیکھ جاؤگے ہمارے ساتھ رہ کر۔”اجمل علی اس طرح کی گفتگو میں مہارت رکھتے تھے۔ پرانے کھلاڑی نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائ تو کرتے ہیں لیکن لمبی اڑان کو روکنا بھی جانتے ہیں۔عقیل کے کانوں نے کچھ سنا یا نہیں اس کو تو علم نہیں لیکن تشنہ نگاہیں چلمن کی دوسری طرف مرکوز تھیں۔“چلو اب اپنے آبائ فن کی کوئ جھلک دکھاؤ۔”ڈھول پیش کیا گیا۔ عقیل بچپن سے اپنے والد کو ڈھول بجاتے دیکھتا آیا تھا۔ ہر فن سیکھنے سے آتا ہے اور پختگی برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن عقیل کو یہ صلاحیت گویا موروثی طور پر منتقل ہوئ تھی۔ ہلکے ہلکے بجاتے ہوئے عقیل کے ہاتھوں کی حرکت جوبن تک پہنچی۔ خاموش رات ہلکی روشنی اور چلمن سے جھلکتا نور۔ کمرے میں ڈھول کے علاوہ مکمل خاموشی تھی۔ سامعین کے جسم ہلکے ہلکے تھرکنے لگے اور ایسا محسوس ہوا جیسے سارا جہاں رقص میں ہو۔اجمل کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔ اس نے پہلی بار اس طرح کسی کو ڈھول بجاتے دیکھا اور سنا تھا۔ کینیڈا میں روایتی ڈھول بجانے والے کم تھے جب کہ طلب زیادہ تھی۔ بجانے والوں میں مہارت تو زیادہ نہ تھی لیکن بڑھتی ہوئ مانگ کے پیش نظر انہیں اچھا خاصہ معاوضہ دینا پڑتا تھا۔“بھئ عقیل بس تم یہ سمجھو کہ تمہاری نوکری پکی۔ ہر ہفتے ہمیں دو پروگرام ملتے ہیں۔ تمہیں ہم پچیس ڈالر فی پروگرام دیں گے۔ بس تیار رہنا کل شام کو تمہیں لے جائیں گے اور واپس بھی چھوڑ دیں گے۔ کھانا بھی ملتا ہے اور میٹھا بھی۔”عقیل نے اکرام الدین کی طرف منت کرتی آنکھوں سے دیکھا۔ ہلکا سا گردن جھکاتے ہوئے اکرام الدین نے ایک اور احسان کا بوجھ عقیل پر ڈال دیا۔ اگر عقیل اور صغریٰ کی شادی ہوگئ تو پھر اجمل سے معاوضہ بڑھانے کی بات کی جائے گی۔دوسری طرف اجمل علی کو ایک سونے کا انڈہ دینے والی مرغی مل گئ تھی۔ ہر ہفتے سو ڈالر دینے باوجود بڑی منت سماجت سے کوئ فنکار حامی بھرتا تھا۔ یہاں بیٹھے بٹھائے ایک بہتر گلوکار اور ڈھول بجانے والا پچاس ڈالر فی ہفتہ میں ان کی جھولی میں آن پڑا تھا۔ جب تک کسی ہنر مند کو اپنے ہنر کی اہمیت اور اپنی صلاحیتوں کا احساس نہ ہو اس کا استحصال ناگزیر ہے۔وجود سندھ حکومت میں باوجود تعلیمی اہلیت کے ملازمت نہ مل سکی۔ سوائے کوچ کرنے کے اور کوئ راستہ نظر نہ آیا تو اجمل علی کے خاندان نے پھر سے ہجرت کی سوچی۔ کوئ بھائ کینیڈا تو کوئ امریکہ پہنچا۔ہماری روایات میں یہ بات اچھی ہے کہ بڑے بھائ باپ بن کر اپنے چھوٹے بھائ بہنوں کی پرورش اور کفایت کا فرض ہنسی خوشی نبھاتے ہیں۔ اسلم کے بڑے بھائیوں نے آہستہ آہستہ پورے خاندان کو پاکستان سے بلا کر کینیڈا اور امریکہ بلا لیا۔اجمل بنیادی طور پر انجینیئر تھا لیکن اس کے گلے میں قدرت نے نغمگی اور سوز بھرنے میں بڑی فراغ دلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ٹورنٹو کیا پورے کینیڈا میں اتنا اچھا گانے والے کم ہی تھے۔اجمل نے اپنا ایک بینڈ قائم کیا تھا۔ ہر ہفتے ہی کسی نہ کسی تقریب میں انہیں اپنے فن کے مظاہرے کے مواقع مل جاتے۔ فیض اور فراز کی غزلیں اور نظمیں گاتے تو یوں لگتا جیسے شاعر نے اجمل کی گلوکاری کو مد نظر رکھتے ہوئے الفاظ کو موتیوں میں پرویا ہو۔باتوں ہی باتوں میں عقیل نے اجمل سے کہ دیا کہ اس کے خاندان والے بھی شادی بیاہ کی تقریروں میں ڈھول بجاتے رہے ہیں“ بھئ تمہیں بھی کچھ گانا بجانا آتا ہے؟”“جی تھوڑا بہت گا لیتا ہوں اور ڈھول بھی بجا لیتا ہوں۔” عقیل نے کچھ انکساری اور کچھ ہچکچاہٹ کے لہجے میں نیچی نگاہوں کے ساتھ جواب دیا۔“ارے بھئ اتنا شرما کیوں رہے ہو؟ فنکار کو اپنے فن پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرنا چاہیئے۔ مجھے دیکھو۔ میں انجینیئر ہوں لیکن بڑے شوق اور بڑے فخر سے گانے گاتا ہوں۔ ““ارے اکرام بھائ۔ ذرا ڈاکٹر صاحب کا امتحان تو لیں۔ دیکھیں کیسا ڈھول بجاتے ہیں۔ ان کا گانا تو نہیں سنا لیکن آواز میں سوز اور ساز ہم جیسے استادوں سے چھپ نہیں سکتے۔ ہمارے بینڈ میں کوئ اپنا ڈھول بجانے والا نہیں ہے۔ وِکرم سنگھ کو مونٹریال سے بلانا پڑتا ہے۔اجمل علی کو اپنی صلاحیتوں اور تجربے پر مکمل بھروسہ تھا جیسے ایک جوہری ہیرے اور چمکتے پتھر کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے۔“ جی اجمل بھائ جیسا آپ چاہیں۔”اکرام الدین کے چہرے پر ناگواری کے اثرات آۓ، منڈلائے اور چلے گئے۔ لہجے کی بے بسی کو اجمل نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن وہ عقیل کی آنکھوں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کو اپنا احسان مند ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے اپنا زر خرید غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ اکرام الدین نے عقیل کو اپنے گھر ٹہرایا، ملازمت دی اور دل ہی دل میں گھر داماد بنانے کا بھی سوچ رہے تھے۔ اتنا حق تو بنتا تھا کہ عقیل ان سے پوچھے بغیر کوئ قدم نہ اٹھاتا۔لیکن بیچ میں اجمل آرہا تھا۔ اجمل اور اس کا خاندان برسوں سے اکرام صاحب کے گاہک تھے اور ساتھ ساتھ اجمل کا نیٹ ورک بھی کافی پھیلا ہوا تھا۔ عقیل کی گردن دبوچتے تو کاروبار میں گھاٹے کے خدشے نے انہیں محتاط رویئہ رکھنے پر مجبور کردیا۔کاروباری تجربے نے اکرام الدین کو بہت کچھ سکھا دیا تھا۔اجمل کو نا سننے کی عادت نہیں تھی۔ اسی شام وہ اور اس کے کچھ رفقاء کار اکرام الدین کی رہائش گاہ پر آدھمکے۔ عقیل کچھ سراسیمہ سا اور کچھ خوف زدہ تھا۔ اکرام صاحب کی دور رس نگاہیں ایک کاروباری موقع دیکھ رہی تھیں۔ اگر عقیل کو اجمل کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا تو اس کی وجہ سے مزید گاہک مل جائیں گے۔ مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کی اور مہمان خانے میں انہیں عقیل کی معیت میں روایتی رکھ رکھاؤ سے بیٹھنے کو کہا۔“ہاں عقیل! چلو کچھ سناؤ اور کچھ ڈھول بھی بجا کر دکھاؤ۔ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے صرف کتابیں ہی پڑھی ہیں یا کچھ موروثی فن کو بھی سیکھا ہے؟” اجمل نے ہنستے ہوئے کہا۔ اجمل کا انداز گفتگو بھی ان کی صورت کی طرح دل آویز تھا۔ تحکم اور شیرینی کے امتزاج میں اپنی بات منوانے کا ملکہ سب کو نصیب نہیں ہوتا۔عقیل نے استاد امانت علی خان کی مشہور غزل گنگنانا شروع کیہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے“ارے بھائ اس طرح گاؤگے تو جاگتی قوم گہری نیند سو جائے گی۔ بھئ اپنی آواز بلند کرو اور اس میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کرو۔” اجمل نے ذرا سختی سے کہا۔“ اور ہاں ماسٹر صاحب ذرا طبلہ بجائیں تاکہ ڈاکٹر صاحب بھی موڈ میں آجائیں۔”ببلی کا سنگت اور پردے کے پیچھے بیٹھی صغریٰ کی مشکل سے روکتی ہوئ ہنسی نے عقیل کو تقویت پہنچائ۔ پھر جو اس نے گانا شروع کیا تو سننے والے داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔گائیکی میں جان ایسے ہی تو نہیں آتی۔ کوئ حسین خیال کسی یاد کے ابھرتے نقوش کسی دید کا تصور ساتھ نہ ہوا تو بات نہیں بنتی۔اجمل نے بے ساختہ تالیاں بجائیں۔“ بھئ مان گئے۔ آواز سریلی ہے اور سر تال بھی ٹھیک۔ بس تھوڑی سی پختگی اور مزید مشق کی ضرورت ہے۔ سیکھ جاؤگے ہمارے ساتھ رہ کر۔”اجمل علی اس طرح کی گفتگو میں مہارت رکھتے تھے۔ پرانے کھلاڑی نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائ تو کرتے ہیں لیکن لمبی اڑان کو روکنا بھی جانتے ہیں۔عقیل کے کانوں نے کچھ سنا یا نہیں اس کو تو علم نہیں لیکن تشنہ نگاہیں چلمن کی دوسری طرف مرکوز تھیں۔“چلو اب اپنے آبائ فن کی کوئ جھلک دکھاؤ۔”ڈھول پیش کیا گیا۔ عقیل بچپن سے اپنے والد کو ڈھول بجاتے دیکھتا آیا تھا۔ ہر فن سیکھنے سے آتا ہے اور پختگی برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن عقیل کو یہ صلاحیت گویا موروثی طور پر منتقل ہوئ تھی۔ ہلکے ہلکے بجاتے ہوئے عقیل کے ہاتھوں کی حرکت جوبن تک پہنچی۔ خاموش رات ہلکی روشنی اور چلمن سے جھلکتا نور۔ کمرے میں ڈھول کے علاوہ مکمل خاموشی تھی۔ سامعین کے جسم ہلکے ہلکے تھرکنے لگے اور ایسا محسوس ہوا جیسے سارا جہاں رقص میں ہو۔اجمل کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔ اس نے پہلی بار اس طرح کسی کو ڈھول بجاتے دیکھا اور سنا تھا۔ کینیڈا میں روایتی ڈھول بجانے والے کم تھے جب کہ طلب زیادہ تھی۔ بجانے والوں میں مہارت تو زیادہ نہ تھی لیکن بڑھتی ہوئ مانگ کے پیش نظر انہیں اچھا خاصہ معاوضہ دینا پڑتا تھا۔“بھئ عقیل بس تم یہ سمجھو کہ تمہاری نوکری پکی۔ ہر ہفتے ہمیں دو پروگرام ملتے ہیں۔ تمہیں ہم پچیس ڈالر فی پروگرام دیں گے۔ بس تیار رہنا کل شام کو تمہیں لے جائیں گے اور واپس بھی چھوڑ دیں گے۔ کھانا بھی ملتا ہے اور میٹھا بھی۔”عقیل نے اکرام الدین کی طرف منت کرتی آنکھوں سے دیکھا۔ ہلکا سا گردن جھکاتے ہوئے اکرام الدین نے ایک اور احسان کا بوجھ عقیل پر ڈال دیا۔ اگر عقیل اور صغریٰ کی شادی ہوگئ تو پھر اجمل سے معاوضہ بڑھانے کی بات کی جائے گی۔دوسری طرف اجمل علی کو ایک سونے کا انڈہ دینے والی مرغی مل گئ تھی۔ ہر ہفتے سو ڈالر دینے باوجود بڑی منت سماجت سے کوئ فنکار حامی بھرتا تھا۔ یہاں بیٹھے بٹھائے ایک بہتر گلوکار اور ڈھول بجانے والا پچاس ڈالر فی ہفتہ میں ان کی جھولی میں آن پڑا تھا۔ جب تک کسی ہنر مند کو اپنے ہنر کی اہمیت اور اپنی صلاحیتوں کا احساس نہ ہو اس کا استحصال ناگزیر ہے۔

September 16, 2022

From → Uncategorized

Leave a Comment

Leave a comment