Skip to content

September 2, 2022

ڈاکٹر ڈھول باجے والا
ایک قسط وار ناول
ڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانی

چودھویں قسط
عقیل پہلے تو چونک سا گیا لیکن پھر آواز کچھ جانی پہچانی سی محسوس ہوئ۔ مڑ کے دیکھا تو ایک ہنستی مسکراتی صورت نے اس کا خیر مقدم کیا۔
“ مجھے پہچانا ڈاکٹر صاحب؟”
یہ تو وہی ٹیکسی ڈرائیور تھا جس نے دیارِ غیر میں اسے بغیر کرایہ لیئے ریلوے سٹیشن سے اکرام الدین کے گھر تک سلامتی کے ساتھ پہنچایا تھا۔
عقیل بڑی گرم جوشی سے اس کے گلے لگ گیا۔ نہ جانے کیوں اسے ایک انسیت کا خوشگوار احساس ہوا۔
“ جی جی بالکل پہچان لیا۔”
“میرا نام رضوان ہے۔ میرا گھر یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے اور میں کبھی کبھار یہاں نماز پڑھنے آجاتا ہوں۔ آپ کیسے ہیں ڈاکٹر صاحب؟”
پیش تر اس کے عقیل جواب دیتا اکرام الدین پہنچ گئے۔
“ارے بھئ رضوان کیسے ہو؟ تم اور عقیل ایک دوسرے کو جانتے ہو کیا؟”
“بس اکرام صاحب یہ دوسری ملاقات ہے۔ ریلوے سٹیشن پر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تھا۔ گھبرائے گھبرائے سے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنا وقت یاد آگیا تھا۔ آپ کے گھر تک میں نے ہی انہیں اتارا تھا۔”
“اچھا اچھا۔ پردیس میں کوئ اپنا ہم وطن نظر آجائے تو دل کو ذرا اطمینان سا ہوجاتا ہے۔ آؤ عقیل میاں گھر چلیں۔ رات ہوگئ ہے۔ کل جمعہ ہے جلدی دکان جانا ہوگا۔”
“ ارے اکرام صاحب میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں اور تھوڑی دیر ڈاکٹر صاحب کو شہر کی رونقیں دکھا کر واپس چھوڑ دوں گا۔ بس تھوڑی دیر کے لیئے۔”
اکرام الدین کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرنے لگے۔ عقیل نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا لیکن دل ہی دل میں دعا مانگنا شروع کردی کہ اکرام صاحب ہاں کہ دیں۔ نجانے کیوں اس کا دل ٹیکسی ڈرائیور کی طرف کھنچا جارہا تھا۔
“ فکر نہ کریں اکرام صاحب کرایہ نہیں لوں گا۔”
“اچھا بھئ اب جلدی چلو مجھے نیند آرہی ہے۔ اور سنو عقیل زیادہ دیر مت لگانا۔ اہل خانہ بھی جلدی سونے کے عادی ہیں۔ وہ تو ہم سے بھی پہلے تہجد کے لیئے اٹھ جاتے ہیں۔”
عقیل کی جان میں جان آئ۔ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ اکرام الدین کو گھر چھوڑ کر رضوان نے عقیل کو آگے بٹھایا۔ سردی کی رات میں ٹیکسی دھواں چھوڑتی ہوئ آگے بڑھ گئ۔ آسمان پر تاروں بھری دبیز چادر چھائ ہوئ تھی۔ چاند چاندنی بکھیرے ہوئے گویا محوِ خواب تھا۔ ویران سڑک پر گاڑی چلی جارہی تھی۔ رضوان نے عقیل کے جاگتے خواب کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے کہا۔
“تو ڈاکٹر صاحب کیسی گز رہی ہے؟”
“ رضوان بھائ آپ سینیئر ہیں پلیز مجھے عقیل کہ کر بات کریں۔”
“ اچھا اچھا۔” رضوان نے ہنستے ہوئے کہا۔
“میڈیکل کالج میں ایک سال سینیئر بھی اپنی seniority دکھانے میں مست رہتے تھے لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد کیا سینیئر اور کیا جونیئر؟ ملک سے باہر آکر سب برابر ہوجاتے ہیں۔ سب کا ایک ہی ہدف ہوتا ہے۔ ریزیڈنسی کرنا اور ڈالر کمانا۔ اور سب کا ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے کہ یہ کام کیسے ہوگا؟”
عقیل نے اسے اپنی کہانی بلا کم و کاست سنادی۔ رضوان پر اسے گویا اندھا اعتماد سا ہونے لگا تھا۔ اکرام صاحب کے یہاں کام کرنے کی تفصیلات بھی بتا ڈالیں۔
“ مجھے چھ ماہ کا ویزا ملا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے مجھے کوئ اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کن مسائل کا سامنہ ہوگا۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ ماموں کے دوست کافی امیر ہوں گے اور میں یہاں سکون سے بیٹھ کر FMGEMS کی تیاری کرسکوں گا۔ میرے پاس تو زیادہ پیسے بھی نہیں ہیں اور مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میرا ویزا کیسے بڑھے گا۔ میں کیسے پڑھائ کروں گا۔ امتحان کہاں ہوتا ہے، امریکہ کیسے جاؤں گا؟”
عقیل کی داستان غم بڑی خاموشی اور توجہ سے رضوان نے سنی۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کا رد عمل نہیں تھا۔ وہ یہ سب کچھ پہلے بھی کئ نو وارد ڈاکٹروں سے سن چکا تھا۔
رضوان نے ٹیکسی ایک shopping area کے پارکنگ لاٹ میں روک دی۔
ایکgrocery store کے علاوہ سب دکانیں بند تھیں۔ مکمل سناٹے میں کہیں دور سے کتوں کے بھونکنے کی آواز نہ آتی تو اس آباد بستی پر شہر خموشاں کا گمان ہوتا۔
“عقیل میں بھی تمہاری طرح یہاں آیا تھا لیکن ہاؤس جاب کے بعد۔ میرے چچا برسوں سے یہاں آباد ہیں۔ اچھا خاصہ کاروبار ہے ان کا لیکن آتے ہی مجھے بتادیا گیا کہ اپنا خرچہ مجھے خود ہی اٹھانا پڑے گا۔ پڑھائ سے زیادہ کمائ اہم ہوگی۔ اعلی تعلیم سے بڑھ کر بقا کا مسئلہ تھا۔ کئ کام کیئے۔ کسی کے گیراج میں رہا تو کبھی مسجدوں میں راتیں گزارنا پڑیں۔ تین برس کے بعد کچھ پیسے جمع ہوئے تو امتحان دیا۔ سائنس اتنی آگے بڑھ گئ تھی کہ امتحان پاس نہ کرسکا۔ بغیر ویزا کے کوئ ڈھنگ کا کام کیسے ملتا۔ ایک گیس سٹیشن پر روز کے سولہ گھنٹے کام سے دو وقت کی روٹی میسر آجاتی۔ گیس سٹیشن والے نے اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردی لیکن اس شرط پر کہ میں پانچ سال تک اس کے پاس ہی کام کروں گا۔ یہ جو ٹیکسی ہے یہ بھی اسی کی ہے۔ صبح پانچ بجے سے بارہ بجے تک گیس سٹیشن پر کام کرتا ہوں اور پھر ایک بجے سے رات آٹھ بجے تک ٹیکسی چلاتا ہوں۔ نہ دنیا کا نہ دین کا۔
چند سال پہلے گیس سٹیشن پر کچھ لوگ آئے تھے تبلیغ کرنے۔ مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ گشت پر چلو اور تین راتیں مسجد میں گزارو تمہاری دنیا بدل جائے گی۔
میں نے کہا کہ مجھے وقت پر نماز پڑھنا بھی نصیب نہیں ہوتی۔ آپ کے ساتھ گیا تو بیوی بچے کو فاقہ کرنا پڑجائے گا۔ کہنے لگے
“ تم نے دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت بیچ ڈالی ہے۔ اپنے آپ کو بدلو ورنہ جہنم کی آگ میں جلو گے۔”
“ آپ کون ہوتے ہیں جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنے والے؟” غصے میں آکر میں نے کہنے والے کا گریبان پکڑ لیا۔
“لوگ بیچ بچاؤ نہ کرتے تو میں اسے مار ہی ڈالتا۔”
عقیل حیرت سے یہ سب کچھ سنتا رہا۔ کہاں وہ اپنے مسائل میں الجھا ہوا تھا اور کہاں اسے الٹا رضوان کی بپتا سننا پڑگئ
ہم اپنے مسائل میں اتنے کھو جاتے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے کہ بس ایک ہم ہی ہیں جو مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہر شخص کی ایک کہانی ہوتی ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئ مونس کوئ غم خوار ہو جس سے دل کا حال بیان کیا جائے
کوئ ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
عقیل اور رضوان دونوں ہی کچھ دیر خاموش آسمان کے ستارے گننتے رہے۔ بہت کچھ کہنے کو تھا لیکن رات ڈھل رہی تھی اور سردی اپنے عروج پر تھی۔
عقیل کو گھر چھوڑ کر رضوان بھی اپنے گھر لوٹ گیا

From → Uncategorized

Leave a Comment

Leave a comment